Monday, May 11, 2015

جہنمی اپنی آگ اپنے ساتھ لاتاہے

Image result for burning in flames
تذکرہ غوثیہ نامی کتاب   میں ہے۔کہ کسی پہاڑ کی  غار میں ایک فقیر   اپنے   مرید کے ساتھ مصروف عبادت  رہتاتھا۔  فقیر حُقّہ پینے کا رسیا  تھا ، اس لیے اس نے اپنے  مرید کو حکم دے رکھا تھا ہر وقت آگ کا انتظام رکھے۔ ایک روز آدھی رات کے وقت فقیر  کو   حُقّہ پینے  کی حاجت ہوئی  ۔ مرید کو حکم دیا کہ چلم بھردے۔ مرید نے دیکھا کہ بارش کی وجہ سے آگ بجھ چکی تھی۔ اتفاق سے ماچس بھی ختم ہو چکی تھی۔۔ مرید گھبرا گیا کہ اب کیا کرے۔ اس نے فقیر سے کہا :" عالی جاہ ! آگ تو بجھ چکی ہے، ماچس ہے نہیں کہ سلگا لوں ۔ فرمائیے اب کیا کروں ۔" فقیر جلال میں بولا:" ہم تو چلم پئیں گے ، چاہے آگ جہنم سے لاؤ۔"۔ مرید  چل پڑا ۔ چلتے چلتے جہنم جا پہنچا۔ دیکھا کہ جہنم کے صدر دروازے پر ایک چوکیداربیٹھا اونگھ رہا ہے۔۔ مرید   نے اسے جھنجھوڑا۔ پوچھا:" کیا یہ جہنم کا دروازہ ہے؟"چوکیدار بولا:" ہاں ، یہ جہنم کا دروازہ ہے ۔" ۔ مرید نے کہا:" لیکن یہاں آگ تو دکھائی نہیں دیتی ؟"
 چوکیدار نے کہا :" ہر جہنمی اپنی آگ اپنے ساتھ لاتاہے۔"  

انسان کو جلانا انتہائی تکلیف دہ اور دردناک عمل ہے



زندہ انسان کو  آگ  میں جلانا  انتقام کی انتہائی سخت  ‎سزا ہے۔یہ ایسا عذاب ہے جس کا نشانہ بننے والا انتہائی اذیت  و تکلیف سے گذر کر موت سے ہمکنار ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف فلوریڈا  کی تحقیق کے مطابق جلنے کے بعد انسان  کے جسم کی بیرونی  جلد جل کر جسم سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔اس کے بعد کھال کے نیچے موجود موٹی تہہ سکڑنا شروع ہوتی ہے ۔اور یہ دونوں عمل  انتہائی تکلیف دہ  اور دردناک ہوتے ہیں ۔اور اس درد اور تکلیف کے بعد زیادہ کربناک عمل وہ ہوتا ہے جب کھال اور کھال کی زیریں تہہ  کے متاثر ہونے کے بعد چربی اور خون جلتا ہے۔ اس تکلیف اور اذیت کی شدت کا احساس کرنا  ممکن ہے نہ اس کو  الفاظ میں بیان کرنا  ممکن ہے ۔اس تحقیق کے مطابق اگر صرف اس حد تک متاثرہ انسان زندہ ہو اور اسے سات راتوں کا رت جگا ہو تو بھی  وہ اس کرب اور تکلیف کی شدت کے باعث نیند کو بھول چکا ہو گا ۔درد کی شدت کو ناپنے والے  dolorimeter پر جب  شدت 57 کے درجے پر پہنچتی ہے تو  درد کی شدت یوں ہوتی ہے جیسے بیک وقت جسم کی بیس ہڈیوں کو بیک  وقت توڑی جائيں ۔ مگر جلنے کی تکلیف اور درد کی شدت کوناپنے کے لیے مذکورہ آلہ بھی ناکام ہو جاتا ہے ۔مگر  جلنے کا کرب  و درد ختم نہیں ہوتا بلکہ جب جسم کے اندرونی سیال مادے بہہ کر جلتے ہیں تو   تکلیف اور درد اور بڑھ جاتا ہے۔ اس درد و الم کو الفاظ میں بیان کرنا شاہد ممکن ہی نہیں ہے ۔‏‏ 

 Image result for burning in flames

اللہ نے کن لوگوں کو آگ کے عذاب کی نوید سنائی ہے ۔

تاریخ آدمیت میں حکومتوں  کے مخالفین کو  اس سزا کا مستحق گردانا گیا یا پھر  مذہبی مخالفین کو اس سزا سے گذارا گیا۔خدا کی زمین پر زندہ جلا دینا    انتہائی درد ناک اور اذیت ناک سزا گردانی جاتی ہے اللہ تعالی   نے کچھ لوگوں کو عذاب سوزاں کی نوید سنائی ہے ۔ یہ کون بدبخت ہیں ۔ اس کی بھی تصریح کر دی گئی ہے ۔ یہ تین قسم کے بدکار ہیں ۔ آگ کا ایندہن بننے والوں میں  وہ لوگ شامل ہوں گے جو اللہ کے نبیوں کے قتل کے مرتکب ہو چکے ہیں ۔ (5:81) اس صف میں بنی اسرائیل کے  لوگ شامل  ہوں گے کہ یہ سیاہ کاری ان ہی کے ہاتھوں سرزد ہوئی تھی۔
دوسرے اس عذاب کے مستحقین وہ لوگ ہیں   جن کو کلمہ حق پہنچا۔ اور  حق و حقیقت کے سمجھ جانے کے باوجود  اپنی ہٹ دہرمی اور ضد پر اڑے رہے۔ جیسے ابو جہل  حق اور حقیقت کے ادراک کے باوجود  اپنی خاندانی عصبیت اور نسلی برتری کے افتخار کے باعث  حق کے اقرار سے باز رہا ۔ایسے لوگ جو کفر پر مرتے ہيں (8:50)
آگ کے عذاب کی نوید ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو کھلم کھلا اللہ اور اس کے رسول کی  مخالفت  میں کھڑے ہوتے ہیں ۔اور لوگوں کے راہ حق کی قبولیت میں مزاحم ہوتے ہیں ۔ جیسے ابو لہب  جس نے اپنی زندگی کا مقصد ہی  اللہ  اور اس کے رسول  کی مخالفت کو بنا لیا تھا۔ تکبر کے باعث حق سے منہ موڑ لیا تھا ۔ تاکہ لوگوں کو اللہ کے رستے سے گمراہ  کرے ۔اس کے لیے دنیا میں ذلت ہے اور قیامت کے دن  عذاب سوزاں میں جھونک دیا جائے گا ۔(22:9)
اور وہ لوگ جو مومن  خواتین اور مومن مردوں کو تکلیف دیں  اور توبہ نہ کریں تو  ابسے لوگوں کو بھی جلنے کے  عذاب کا  مژدہ ہے ۔(85:10) ۔ اس صف میں شامل لوگ  اپنے کرتوں سے باز آ کراللہ سے  اعتراف گناہ کے ساتھ معافی کے خواستگار رہیں تو  ان کے لیے اللہ تعالی   توبہ قبول کرنے کی قدرت  کے با وصف   اس عذاب سے بچا  لینے  پر قادر ہیں۔
Image result for burning in flames

انسانوں کو زندہ جلانے کی مذمت

Image result for burning in flames
قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جلانے  کے واقعے کا ذکر ہے۔  جنہیں نمرود  نے ا پنے انتقام کا  نشانہ  بنانے کی ناکام سعی کی تھی۔ یمن کے ایک حمیری یہودی  بادشاہ  ذونواس نے بعثت رسول سے قبل  نجران کے مسیحوں کو آگ میں جلانے کے لیے  مشہور   احتراق نعش  تیار کی تھی ۔524ء  میں اس نے انسانوں کو  آگ کی خندقوں  میں جلایا  اور خود کنارے پر بیٹھ کر اس درد ناک منظر کا تماشا دیکھتے رہے ۔ قرآن نے یہودیوں کے اس فعل کی مذمت کی   (گڑہے والے لوگ مارے گئے بھڑکتی آگ کے گڑہے جب وہ ظالم  ان کے کنارے  بیٹھے ایمان والوں کے ساتھ جو کر رہے تھے ان کو دیکھ رہے تھے۔ان کا گناہ یہی تھا کہ وہ غالب اور خوبیوں والے اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔ (البروج  : 3۔8)